تم سے مُمکن ہے تو سب روشنیاں گُل کر دو
کنج مہتاب سے تا گوشہءِ دربارِ شاہی
مثلِ ویرانیِ جاں، صورتِ دامان تہی
وہ اندھرا ہو کہ ہر رنگ پریشاں ٹھہرے
آنکھ پلکوں کی رفاقت سے گُریزاں ٹھہرے
گھر کا روزن کسی جُگنو کی کِرن کو ترسے
ہر طرف شامِ غریباں کی اُداسی برسے
شاخ در شاخ اُترنے لگے وحشت کا عذاب
شورشِ موجِ ہوا، صورِ اسرافیل لگے
رقص کرتے ہوئے بے خواب بگولوں کے بدن
راہگزاروں کی تھکن اوڑھ کے شَل ہو جایئں
ماند پڑ جایئں سِتاروں کے قبیلوں کی رسُوم
جاگتے شہر تہہ خاکِ زمیں ہو جایئں .....!!
شہ رگِ وقت میں سیال سیاہی بھر دو
تم سے مُمکن ہے تو سب روشنیاں گُل کر دو
سب در و بام بجھا دو کہ میرے سینے میں
زخم در زخم فروزاں ہیں لہو کی شمعیں
جن سے کترا کے گزرتی ہے اندھیروں کی قطار
لشکرِ شام و سحر جن کی لووں سے لرزاں
جن کی حِدت سے ہواؤں کو پسینہ آئے
جن سے جذبوں کو دہکنے کا قرینہ آئے
تیرگی اور بڑھا دو کہ میری آنکھوں میں
اشک در اشک منور ہیں ستاروں کے چراغ
جن کی ضو چوم کے خورشیدِ قیامت اُبھرے
جن کے سائے میں ہمکتی ہوئی اُمیدوں کا
جشنِ نوروز کی صورت قد و قامت اُبھرے
جن کے رنگوں میں ڈھلیں عصر درخشاں کے نقوش
جن کا پرتو سبھی زروں کی جبیں پر اُترے
کہکشاں جن کی زیارت کو زمیں پر اُترے
چاند سے نقش مِٹا دو کہ میرے ہونٹوں پر
حرف در حرف دمکتے ہیں دلِ زار کے داغ
جن کی خُوشبو سے پِگھلتا ہے دو عالم کا دماغ
جن کی تابندہ مزاجی سے نگیں شرمندہ
جو بکھرتے ہیں تو رنگوں کی دھنک ٹوٹی ہے
جن کے پہلو سے کئی صبحوں کی پو پھوٹتی ہے
تم سے مُمکن ہے تو سب روشنیاں گُل کر دو
تم سے مُمکن ہے، مگر تم سے کہاں مُمکن ہے ؟
رشتہءِ نکہتِ گُل ، گُل سے جدا ہو جائے
سنگ سے رنگ ، ہوا خود سے خفا ہو جائے
یاد رکھنا.. .. کہ تمہیں یاد رہے یا نہ رہے
جب تلک راہ میں دیوارِ قضا حائل ہے
میری فریاد میں ، تیشے کا ہنر جاری ہے
جب تلک شہرِ دل و جاں کے کسی گوشے میں
صبحِ گُلرنگ کی منزل نہ دکھائی دے گی
"شب کے صحرا میں ستاروں کا سفر جاری ہے "
( محسن نقوی )
Subscribe to:
Post Comments
(
Atom
)
0 comments :
All right reserved by Luqman Ch.