میرے خُلوص کی گہرائی سے نہیں ملتے ۔ ۔ ۔



میرے خُلوص کی گہرائی سے نہیں ملتے ۔ ۔ ۔
یہ جُھوٹے لوگ ہیں سچائی سے نہیں ملتے ۔ ۔ ۔


وہ سب سے مِلتے ہوئے ہم سے مِلنے آتا ہے ۔ ۔ ۔
ہم اِس طرح کسی ہرجائی سے نہیں ملتے ۔ ۔ ۔

پُرانے زخم ہی کافی ہیں شُمار کرنے کو ۔ ۔ ۔
اِس لیے کسی نئے شناسائی سے نہیں ملتے ۔ ۔ ۔

ہیں ساتھ ساتھ مگر فرق ہے مزاجوں کا ۔ ۔ ۔
میرے قدم میری پرچھائی سے نہیں ملتے ۔ ۔ ۔

محبتوں کا سبق دے رہے ہیں دنیا کو ۔ ۔ 
جو ”عید اپنے سگے بھائی سے نہیں ملتے ۔ ۔ ۔

شاعر: راحت اندوری

Meray Khuloos Ki gehrayii sy nahi miltay 
Yeh Jhuthay Log Hein Sachaii sy nahi miltay

Woh Sab sy miltay Huey Ham sy milnay aata Hai
Hum iss Tarah Kisi Harjaai sy nahi miltay

Puranay Zakhm Hi Kaafi Hein Shumaar Karnay Ko
is liye Kisi Naye Shanasaai sy nahi miltay

Hein Saath Sath Magar Fark Hai Mizaajoon Ka
Meray Qadm Meri parchhaii sy nahi Miltay

Mohabbaton Ka Sabak Day rahay Hein Duniya Ko
Jo "Eid" Apnay Sagay "Bhai" sy nahi miltay

Poet: Rahat Andori

0 comments :

All right reserved by Luqman Ch.