ہنستے ہوئے رُخصت کرو مجھ کو ۔ ۔۔





ہنستے ہوئے رُخصت کرو مجھ کو ۔ ۔۔
وہ کہتا ہے ۔ ۔
پَرندوں کی اُڑانیں قطع ہوتی ہیں ۔ ۔
تو ہونے دو ۔ ۔
درختوں پر لکھے نا موں کی خوشبو کو دُھوئیں کا زہرڈستا ہے ۔ ۔
تو ڈسنے دو ۔ ۔
دُکانیں کُھل گئیں خوابوں کا کاروبار سستا ہے ۔ ۔ ۔
تو رہنے دو ۔ ۔ 
ہرے پتوں پہ ہریالی ذرا سی ہے ۔ ۔
فضا میں کس قدر گہری اُداسی ہے ۔ ۔
اگر خلقِ خدا خاموش رہنا چاہتی ہے ۔ ۔
ظلم سہنا چاہتی ہے ۔ ۔
اور اگر دِل میں اُمیدوں کی تاریکیوں کا خوف روشن ہے ۔ ۔
تمہں کس بات کا غم ہے ۔ ۔
تمہں کاہے کی اُلجھن ہے ۔ ۔
میں دکھ سے ٹوٹے جاتا ہوں ۔ ۔
وہ کہتا ہے ۔ ۔
جو لمحہ ہم سے دامن گیر ہے ۔ ۔
اُس کا کہا مانو ۔ ۔
بدن جو کہ رہا ہے ۔ ۔
وہ زباں سمجھو ۔ ۔
وہ لمحہ جو ہمیں دو مختلف سمتوں کی دوری سے اُٹھا کے مرکزی نقطے پر لے جائے ۔ ۔

علاوہ اس کے جو کچھ ہے زیاں سمجھو ۔ ۔
بہت سی اَن کہی باتوں سے دم گھٹنے لگا ہے ۔ ۔
آؤ ۔ ۔ ۔ اِس خلوت کدے کے مرکزی پھیلاؤ میں ان کو رہا کر دیں ۔ ۔
کوئی ہل چل مچائیں اور ہنگامہ بپا کر دیں ۔ ۔
ابھی تم کہ رہے تھے ۔ ۔
جس طرف دیکھو ۔ ۔
محلے گھر گلی بازار رستے آنسوؤں اور سِسکیوں سے بھر گئے ہیں ۔ ۔
جانے کتنے لازمی کردار بے مقصد کہانی کے سفر میں مر گئے ہیں ۔ ۔
خواب گاہوں سے ہمارے خواب سڑکوں پر نکل آئے

۔ ۔
تماشہ کرنے والے بھی نگاہوں میں نہیں آئے ۔ ۔
تماشہ دیکھنے والے بھی اب آنکھوں سے اوجھل ہیں ۔ ۔
ہمارے رت جگے نیندوں سے بو جھل ہیں ۔ ۔
درو دیوار سے اُلجھی ہوئی سرگوشیوں کے زخم رستے ہیں ۔ ۔
سمے کی بھاگتی پر چھا ئیوں کی اوٹ میں پھیلے ہوئے سائے نئی تاریخ لکھتے ہیں ۔ ۔
میں اُس کو دیکھتا ہوں ۔ ۔
اور نئی تاریخ کا صفحہ اُلٹتا ہوں ۔ ۔
ستم کی آگ میں جلتے ہوئے جسموں کی مزدوری ۔ ۔
ہزاروں دائروں اور سلسلوں کے درمیا ں رکھی ہوئی دوری ۔ ۔
ہمارا پیرھن صدیوں کی مجبوری ۔ ۔
ہماری خواہشوں کے پر نہیں ہوتے ۔ ۔
کہ ساری عمر جن کی چار دیواری کو بنتے ہیں ۔ ۔
ہمارے گھر نہیں ہوتے ۔ ۔

ہمارے آئنے خود اپنی ہی حیرت سے ڈرتے ہیں ۔ ۔
ہمارے خواب ۔ ۔
تعبیروں کے آنگن میں ۔ ۔
خس و کا شاک کی صورت بکھرتے ہیں ۔ ۔
مگر اک آس دل میں کروٹیں لیتی ہے ۔ ۔
اک اُمید کی بارش میں تن من بھیگ جاتا ہے ۔ ۔
خیال آتا ہے ۔ ۔
دکھ ۔ ۔ ۔ جاتی ہوئی رُت کے مُسافر ہیں ۔ ۔
اسی جاتی ہوئی رُت کی خزاں آباد گلیوں میں ۔ ۔
بہار آثار آبادی کے جگنو پھیل جائیں گے ۔ ۔
رویوں اور رسموں کے کھنڈر ہوتے ہوئے جنگل کے سناٹے ۔ ۔
رہائی کے لئے رستہ بنائیں گے ۔ ۔
نئے قدموں کی آہٹ سر اُٹھا ئے گی ۔ ۔
ہوا ۔ ۔ ۔ آواز کا چہرہ بنائے گی ۔۔ ۔
یہی چہرہ تمہارا ہے ۔ ۔ یہی میرا ہے ۔ ۔ سب کا ہے ۔ ۔
یہ لوحِ وقت پہ محفوظ کب کا ہے ۔ ۔

میں اُس کو دیکھتا ہوں ۔ ۔
اور اک صفحہ پلٹتا ہوں ۔ ۔
بہت نزدیک آتے فاصلوں کی دھند چھٹتی ہے ۔ ۔
کہ جیسے درد کی زنجیر کٹتی ہے ۔ ۔
زمانہ ایک ساعت کو ٹھرتا ہے ۔ ۔
پلک جھپکوں تو یہ منظر بکھرتا ہے ۔ ۔
ہمیشہ کے لئے کب رات رہنی ہے ۔ ۔
اِسی ٹھرے ہوئے پل میں تمہں اک بات کہنی ہے ۔ ۔
تم ہنستے ہو ۔ ۔

تو کتنے بے ریا جذبوں کے عکس آواز بنتے ہیں ۔ ۔
چلو ہنستے ہوئے رُخصت کرو مجھ کو ۔ ۔
جو چلتے ہو ۔ ۔
تو کیسے روشنی چھنتی ہے پیروں سے ۔ ۔ ۔
چلو چلتے ہوئے رُخصت کرو مجھ کو ۔ ۔
ابھی جس آگ میں ہم جل رہے ہیں ۔ ۔ ۔ آؤ ۔ ۔ ۔
اوراُس آگ میں جلتے ہوئے رُخصت کرو مجھ کو ۔ ۔
چلو ہنستے ہوئے رُخصت کرو مجھ کو ۔ ۔

شاعر: سلیم کو ثر ۔ ۔ ۔

0 comments :

All right reserved by Luqman Ch.