میں تو کہتا تھا
میری پرستش نہ کر !
میری عُریاں ہتھیلی پہ پلکوں کے اندر چھُپی خواہشوں کے ستارے
نہ چُن
میری قَسموں میں لپٹے ہوئے وصل وعدوں سے
اپنی حَسیں ریشمی چاہتوں کے کنارے نہ بُن
میرے لفظوں پہ مَت جا
کہ نا مُعتبر لفظ فصلِ خزاں کی ہوَا میں بکھرتے ہوئے زرد پتّوں
کی آواز ہیں
میرے پاؤں کے تلوؤں پہ یاقوت و مرجاں سے ہونٹوں
کے موتی نچھاور نہ کر
میں تو کہتا تھا
جذبوں کی مُنہ زور آندھی کے رستے میں اتنے دیے مت جَلا
اپنی خواہش کے تپتے ہوُئے دشت میں
بے جہت رقص کرتے بگولوں کی خالی ہتھیلی پہ
شفّاف خوابوں کے ریشم میں لپٹے ہوئے جُگنوؤں کے
گُہر مت سجا
مت سَجا سازشی سوُرجوں کے مقابِل سُخن آئینے
میں تو کہتا تھا
چاہت کی ساری لکیریں
سبھی ذائقے
سب رُتیں
دُھوپ چھاؤں کے اندھے ادُھورے سفر سے اُبھرتی ہوُئی
گرد کی تہہ میں پوشیدہ منظر کے
بنتے بگڑتے خد و خال کا
استعارہ سمجھ
گردشِ روزوشب کا اشارہ سمجھ
دیکھ اپنی جوانی کی جلتی ہوئی دوپہر میں کوئی خواب دیکھا نہ کر
میرے ہاتھوں کی یخ بستگی پہ سرِ شام
سوچا نہ کر
مجھ سے اِتنی عقیدت بھی اچھی نہیں
میرے نزدیک آ
میرے تن میں اُتر
میری بانھوں کے آنگن میں بکھری ہوئی دُھوپ میں بن سنور
مجھ سے کیسا حذَر؟
مجھ کو ’’ اپنا ‘‘ سمجھ
میرے نزدیک اپنائیت سے بڑا کوئی رشتہ نہیں
میری چاہت کو کوئی تقاضا سمجھ
میرے اندر کا انساں فرشتہ نہیں
اور اب
تیرے رُوٹھے ہوُئے لفظ!
گجروں کے سُوکھے ہوُئے پھول!
آنکھوں میں بکھرے ہوئے آنسوؤں کے گُہر!
تیرے معصوُم جذبوں کے سچ کی مُسلسل گواہی مگر
میں تو کہتا تھا میری پرستش نہ کر
میں تو کہتا تھا
میری پرستش نہ کر
محسن نقوی
Subscribe to:
Post Comments
(
Atom
)
0 comments :
All right reserved by Luqman Ch.